Monday, January 10, 2011

محاورہ ما بین از خدا و انساں

محاورہ ما بین از خدا و انساں

(خدا)

جہاں را ز یک آب و گِل آفریدم
...
تُو ایران و تاتار و زنگ آفریدی

من از خاک فولادِ ناب آفریدم

تُو شمشیر و تِیر و تفنگ آفریدی

تبر آفریدی نہالِ چمن را

قفس ساختی طائرِ نغمہ زن را

(انسان)

تُو شب آفریدی ،چراغ آفریدم

سفال آفریدی، ایاغ آفریدم

بیابان و کہسار و راغ آفریدی

خیابان و گلزار و باغ آفریدم

من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم

من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم

( ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ)

اردو ترجمہ:

(خدا انسان سے گلہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے انسان!)

میں نے تو (ساری ) دنیا کو ایک ہی طرح کے پانی اور مٹی سے پیدا کیا تھا(مگر) تو نے اِسے ایران، تاتار اور حبشہ میں تقسیم کر دیا۔ میں نے زمین سے خالص فولاد پیدا کیا تھا (مگر) تو نے اس سے تلوار، تِیر اور بندوق (جیسے مہلک ہتھیار) بنا لئے۔ تُو نے باغ کے پودوں کو کاٹنے کے لئے کلہاڑا بنایا اور گیت گانے والے پرندوں کے لئے پنجرہ بنا لیا۔

(اللہ تعالیٰ کی بات کے جواب میں انسان خدا سے کہتا ہے کہ اے خدا!)

تُو نے رات بنائی تو میں نے (اُس رات کو روشن کرنے کے لئے) چراغ بنا لیا، تُو نے مٹی پیدا کی میں نے اس مٹی سے پیالہ بنا لیا۔ تُو نے بیاباں، پہاڑ اور جنگل پیدا کیے تو میں نے پھولوں کی کیاریاں، چمن اور باغ بنائے۔ میں وہ ہوں جو پتھر سے آئینہ بناتا ہے، میں وہ ہوں جو زہر سے دوائے شفا بناتا ہے

See more

0 comments:

Post a Comment